امریکہ کے صدر براک اوباما اپنی کتاب “اے
پرامسڈ لینڈ”
میں لکھا ہے کہ ایبٹ آباد میں نیوی سیلز کے آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے
بعد اُن کا خیال تھا کہ سب سے سخت جو کال ہوگی وہ پاکستانی صدر آصف زرداری کی ہو گی
کیونکہ اس واقعے پر ان پر پورے ملک سے دباؤ ہو گا کیونکہ اس سے پاکستان کی سالمیت
کی تضحیک ہوئی ہے۔
لیکن انکے مطابق صدر آصف ذرداری کا ریکشن بلکل
مختلف تھا۔
براک اوباما لکھتا ہے کہ صدر آصف زرداری اس کال
پر کافی جذباتی تھے اور انھوں نے اپنی "اہلیہ بینظیر بھٹو" کا بھی ذکر کیا
جن کو القاعدہ سے منسلک لوگوں نے ہلاک کیا تھا۔
یہ کتاب اوباما کے بچپن سے اور ان کے پہلے دور
صدارت کے سب سے اہم واقعہ مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت تک کے واقعات تک شامل
ہے۔ وہ اپنی آپ بیتی کا دوسرا حصہ لکھ رہے ہیں لیکن یہ ابھی تک معلوپ نہیں ہے کہ
اس کی اشاعت کب ہو گی۔
سات حصوں پر مشتمل کتاب کا آخری حصہ اسامہ بن
لادن پر ایبٹ آباد میں کیے گئے حملے اور اس کی منصوبہ بندی کے بارے میں ہے
براک اوبامہ لکھتے ہیں کہ انھوں نے اپنے وزیروں
کو مئی 2009 میں کہا کہ وہ القاعدہ کے صدر کی کھوج لگانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے
منصوبہ بندی شروع کردی جائے اور ہر 30 دن کے بعد انھیں اس کے بارے میں معلومات دی
جائے۔
اس بارے میں اوباما لکھتے ہیں کہ ان کے لیے سب
سے ضروری یہ تھا کہ اس کام کو مکمل طور پر خفیہ رکھا جائے اور صرف امریکی انتظامیہ
میں چند گنتی کے کچھ لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہوا۔ پاکستانی حکام کوبھی اس
منصوبے کی بھنک بھی نہ پڑنے دی گئی۔
No comments:
Post a Comment
If you have any suggestion kindly let me know