(Pic: CNN (Polar Bear emails |
ناروے میڈیا: جی ہاں اب سائنس کی مدد سے خود برفانی
بھالو بھی اتنے قابل ہوچکے ہیں کہ وہ اپنی خیریت کا پیغام اور ای میل انسانوں کو بھیج
سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بھالوؤں کے جسم پر مخصوس ڈوائسز لگائی جاتی ہیں۔ یہ سب ان
کو غنودگی میں لاکر کیا جاتا ہے۔
ناروے کے پولرانسٹی ٹیوٹ کے ایک سائنسداں کو مادہ
برفانی ریچھوں جو کہ آرکٹک خطے میں رہتی ہیں کے پیغامات ہرمہینے موصول ہوتے ہیں۔
ان میں سے کچھ ایس ایم ایس اور بعض ای میل کی صورت میں سادہ نوٹس ملتے ہیں۔ آرکٹک
خطہ ناروے کے قریب ہی واقع ہے۔ جس میں سوالبارڈ نامی ایک علاقے میں تین سو کے قریب
برفانی ریچھ موجود ہیں اور دنیا بھر میں ان کی تعداد صرف 26000 ہی بچی ہیں۔
یہ سائنسدان ہرسال 70 کے قریب برفانی ریچھوں کے
گلے میں سیٹلائٹ کالر لگاتے ہیں جن میں موجود ہر ٹرانسمیٹر چوبیس گھنٹوں میں ایک
مرتبہ ایک سیٹلائٹ کال دیتاہے جو ان نقل و حرکت اور دیگر معلومات مہیا کرتی ہے ۔
اور اس سیٹلائٹ کال کی ساری تفصیلات براہِ راست ایک سائیسدان جون آرس کے ای میل
اکاؤنٹ میں آ جاتی ہے۔ اس طرح کے جانوروں کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات ماہرین
کے لیے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ اس سے سائنسدان جانوروں پر آب وہوا میں ہونے
والی تبدیلی کے اثرات کے متعلق جان سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی علم حاصل کرتے ہیں کہ
آخر اس تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا میں یہ جانور خود کو کس طرح تبدیل کر رہے ہیں۔
اپنی
گردن میں لگے سیٹلائٹ کالر سے ہر برفانی بھالو کی خیریت سائنسدانوں کو ای میل کی صورت میں
موصول ہوتی ہے
اس خطے میں زمینی درجہ حرارت بھرنے سے برف تیزی
سے پگھل رہی ہے اور برفانی ریچھوں کی ایک بڑی تعداد اس سے شدید متاثر ہورہی ہے۔ یہ
معصوم جانور بہت تیزی سے اب دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔ سیٹلائٹ ٹریکنگ
کالر لگانے سے پہلے تمام ریچھوں کا وزن کیا جاتا ہے اور مختلف جسمانی نمونے لیے
جاتے ہیں تاکہ بعد میں انکی صحت اور فضا میں موجود آلودگیوں کا ان پر اثر کا بھی
جائزہ بھی لیا جاسکے۔ اس الیکٹرک کالر کی وجہ سے یہ بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
ریچھنی اپنے غار میں جارہی ہے یا نہیں کیونکہ اکثر اوقات مادہ ریچھ صرف اس صورت میں
ہی غار میں جاتی ہے جب وہ بچے کو جنم دیتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قطبین والے علاقوں
میں پائے جانے والے ریچھ اس بدلتے ہوئے آب و ہوا کے ماحول کے تحت خود کو ڈھالنے کی
کوشش کررہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment
If you have any suggestion kindly let me know