اکثر اوقات انسان اپنے
مزاج اور فطرت کے خلاف ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یا تو وہ اپنا نقصان کر بیٹھتا
ہے یا فطرت پھر سے اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے یہ واقعہ بھی اسی پس منظر میں ہے جب
ایک نوجوان نے اپنی ہی بیوی کی بے وفائی سے سخت
دل ازاری ہوئی اور اس کے دل و دماغ پہ پر ایک گہری چوٹ لگی اور اسے شخص کو اجتماعی
طور پر لڑکی کے وجود سے ہی نفرت ہوگئی۔
Human Nature |
وہ
اپنے انتہائی چھوٹے بیٹے کو لے کر شہر کی آبادی سے دور جنگل میں لے گیا اور وہاں
ایک جھونپڑی بنا ئی اور اور اپنے ساتھ ایک قسم کھائی کہ میں اپنے بیٹے کو کبھی کسی
عورت کی صورت تک نہیں دیکھنے دے گا۔ ایک عرصہ بیت گیا اب اسکا بیٹا بیس برس کا ہو
گیا تھا جس نے کبھی کی عورت ذات کو نہیں دیکھا تھا۔ ایک دن وہ اور اس کا بیٹاجنگل
میں شکار کررہے تھے کہ وہاں پر کچھ لڑکیوں
کا قافلہ گزر رہا تھا لڑکے کی جب ان پر نظر پڑی تو انہیں مسلسل دیکھنے میں لگ گیا
باپ نے یہ دیکھا تو اس کا بازو جھٹکا اور
کہا کہ چلو ہم اپنے گھر چلتے ہیں۔ بیٹا انتہائی اسرار کرنے لگا کہ یہ کون سی مخلوق
ہے جو ہمارے جیسی ہی اور میں نے آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ جب بیٹے کے بار بار ضد
کرنے پر باپ نے تنگ آکر یہ کہہ دیا کہ یہ دوسرے دنیا کا ایک جانور ہے اور اسکو
شتر مرغ کہتے ہیں۔
رات ہوئی اور سونےکے وقت ہو تو نوجوان کروٹیں
بدلنے لگا، کبھی جھونپڑی سے باہر جائے، کبھی اوپر دیکھتا ہی چلا جائے، لیکن سو نا
سکے، رات تقریبا ساری گزر گئی اور رات آخری پہر باپ نے تنگ آکر یہ پوچھا کہ
مسئلہ کیا ہے سوتے کیوں نہیں ہو، کیا وجہ ہے؟ بیٹے نے کہا مجھے خود کچھ سمجھ نہیں
آرہی لیکن مچھے وہ شترمرغ بہت یاد آ رہا ہے اور مجھے وہ شترمرغ چاہیے۔
یہ
لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی فطرت کو بدلہ نہیں جاسکتا۔ فطری خواہشات تو فطرت
کے تحت جنم ہی لیتی ہیں۔ بیسویں صدی کے اس انٹر نیٹ دور میں تعلقات بننے میں سیکنڈز
یہ لگتے ہیں۔ اب اس دور میں ہم ذریعہ کو تو ختم نہیں کرسکتے لیکن ذہن میں پیدا
ہونے والے خیالات کو علم، اچھی تربیت اور پاکیزگی سے ضرور ختم کر سکتے ہے۔ بچہ جب
کبھی کوئلہ پکڑنے لگے تو اس کے پکڑنے سے پہلے ہی ہم اس کی تربیت کردیتے ہیں کہ وہ
اس کے لیے نقصان دہ ہے لیکن بچوں کی بھرتی عمر کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں کے لیے
تیار نہیں کرتے۔
مسلمانوں کے لیے آج کے دور کا سب سے بڑا ایشو
اپنی ہی نوجوان نسل کے لیے تیار ان کی ذہن کی عمر سے بڑے خیالات اور ان کے حل کے
لیے گھر میں تربیت کا تقریبا نہ ہونا ہے۔ اگر ہم مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ رہنا
ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت کرنی ہیں تو پھر فطرت کے تقاضوں اور اس جدید
زمانہ کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی اسلام کے
مطابق تربیت کرنا ہوگی۔اور اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدت اختیار کرنا ہو
گی اور تاکہ ہم اسلام سے بھی دور نہ ہو اور ہماری نسلیں بھی بچ جائے۔ ورنہ باقی
ادیان کی طرح ہماری نسلیں بھی خداناخوانستہ ملحد نہ ہو جائے
No comments:
Post a Comment
If you have any suggestion kindly let me know